لپک کر لیں جسے پانی کی لہریں
کنارِ آب وہ سروِ رواں ہو
Printable View
لپک کر لیں جسے پانی کی لہریں
کنارِ آب وہ سروِ رواں ہو
تمہارے حق میں کیا جانوں کہوں کیا
سُرورِ چشم ہو تم لطفِ جاں ہو
زباں سے کُچھ سوا لطفِ بدن ہے
سراپا تم حریر و پرنیاں ہو
مہک ہو یا میانِ لب فغاں ہو
کسی پہلو تو ذکرِ گل رُخاں ہو
پتہ دیتا ہے ماجدؔ کو ترا ہی
یہ مرغانِ نفس کا چہچہانا
جو کھنچنا تو رُتوں کو مات کرنا
قریب آنا تو رَگ رَگ میں سمانا
ٹھِٹھکنا قُرب سے فرمائشوں کی
سلیقے بُعد کے ہم کو سکھانا
تمہیں آتا ہے مرغِ آرزُو کے
پروں کو نوچ کر ہر سُو اڑانا
ترستی ہے جسے اپنی سماعت
وُہی اک حرف ہونٹوں پر نہ لانا
وُہی جس کی ہمیں پیہم لپک ہے
وُہی منظر نگاہوں سے چھپانا