تیری یادوں کا اِک ہجوم بھی ہے
آج کی رات میں نہیں تنہا
Printable View
تیری یادوں کا اِک ہجوم بھی ہے
آج کی رات میں نہیں تنہا
وہ کسی بزم میں نہ آئے گا
گوشۂ دل کا وہ مکیں تنہا
کار و بارِ حیات کا حاصل
ایک دولت ہی تو نہیں تنہا
دل نہ ہو گر نماز میں حاضر
ہے عبث سجدۂ جبیں تنہا
میرے ارحم! کبھی تو اِس دل میں
ہو ترا خوف جاگزیں تنہا
میرا سامانِ آخرت مولا
چشمِ نادِم کا اِک نگیں تنہا
ہم سفر کوئی نہ تھا اور چل دئے
اجنبی تھا راستہ اور چل دئے
شدتِ شوقِ سفر مت پوچھئے
ناتواں دل کو لیا اور چل دئے
کس قدر جلدی میں تھے اہلِ جنوں
راستہ پوچھا نہ تھا اور چل دئے
اہلِ محفل کی جبینیں دیکھ کر
خوش رہو، ہم نے کہا، اور چل دئے