حُسن سارا وُہ اِک تجھی میں ہے
ڈھونڈتا ہُوں جسے ہزاروں میں
Printable View
حُسن سارا وُہ اِک تجھی میں ہے
ڈھونڈتا ہُوں جسے ہزاروں میں
جب سے مہکا ہے تن بدن تیرا
کھلبلی سی ہے اِک بہاروں میں
عالمِ خواب ہے کہ قُرب تِرا
گھر گیا ہوں عجب شراروں میں
پھُوٹتی ہے جو کنجِ لب سے ترے
آگ ایسی کہاں چناروں میں
روز تفسیرِ لطفِ جاں دیکھوں
تیرے مبہم سے اِن اشاروں میں
تن بدن لُطف سے نِکھرا دیکھوں
رُوح میں تُجھ کو سمایا دیکھوں
اشک در اشک ہوں عنواں تیرے
آئنوں میں تجھے اُترا دیکھوں
خوشبُو ہے اس میں رنگ ہیں، ندرت ہے تہ بہ تہ
ماجدؔ کا شعر تیرے بدن کی زمیں لگے
میرے لہو کا حسُن بھی جھلکے بہ حرف و صوت
ہاں اپنے ہاتھ تُجھ سا اگر نازنیں لگے
شعلے تمام اس میں تری دید ہی کے ہیں
میری نگاہ کیوں نہ بھلا آتشیں لگے