ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
Printable View
ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے
سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو
اس شہر میں گارت گرِ ایماں تو بہت تھے
کچھ گھر کی شرافت ہی بچا لے گئی ہم کو
وہ ان دنوں تو ہمارا تھا لیکن اب کیا ہے
پھر اس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے
تم اس کا وار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
دبیز کہر ہے یا نرم دھوپ کی چادر
خبر نہیں ترے بعد اے غبارِ شب کیا ہے
میں بھی اے سرخیِ بے نام تجھے پہچانوں
تو حنا ہے کہ لہو، پیکرِ تصویر میں آ
اس کے حلقوں میں تگ و تاز کی وسعت ہے بہت
آہوئے شہر، مری بانہوں کی زنجیر میں آ
چارہ گر خیر سے خوش ذوق ہے، اے میری غزل
کام اب تو ہی مرے درد کی تشہیر میں آ
وہ بھی آمادہ بہت دن سے ہے سننے کے لئے
اب تو اے حرفِ طلب معرضِ تقریر میں آ
ایک رنگ آخری منظر کی دھنک میں کم ہے
موجِ خوں اٹھ کے ذرا عرصۂ شمشیر میں آ