مری آنکھوں میں بارش کی گھٹن تھی
تمہارے پاؤں بادل چومتا تھا
Printable View
مری آنکھوں میں بارش کی گھٹن تھی
تمہارے پاؤں بادل چومتا تھا
بہت شدت سے جو قائم ہوا تھا
وہ رشتہ ہم میں شاید جھوٹ کا تھا
تمہاری ہی گلی کا واقعہ ہے
میں پہلی جب تنہا ہوا تھا
کھجوروں کے درختوں سے بھی اونچا
مرے دل میں تمہارا مرتبہ تھا
پھر اس کے بعد رستے مر گئے تھے
میں بس اک سانس لینے کو رکا تھا
قیس و لیلیٰ کا طرفدار اگر مر جائے
میں بھی مر جاؤں یہ کردار اگر مر جائے
پھر خدایا! تجھے سورج کو بجھانا ہوگا
آخری شخص ہے بیدار اگر مر جائے
چھپنے والے تو کبھی سوچ کہ اک دن بالفرض
یہ مری خواہش دیدار اگر مر جائے
باندھ رکھی ہے قبیلے نے توقع جس سے
اور اچانک ہی وہ سردار اگر مر جائے
عین ممکن ہے کہ آ جائے مرا نام کہیں
شہرِ لیلیٰ کا گنہگار اگر مر جائے
منتظر جس کی یہ آنکھیں ہیں کئی برسوں سے
اور وہ چاند بھی اس پار اگر مر جائے
زمیں کے آخری حصے پہ میں ٹھہرا ہوا ہوں
تمہارے عشق میں جانے کہاں پہنچا ہوا ہوں
ہجومِ خواب سے گھبرا کے آنکھیں کھل گئی تھیں
پھر اس کے بعد میں تنہائی میں کھویا ہوا ہوں
گزارا تھا تمہارے شہر کی گلیوں میں بچپن
تمہارے شہر کی گلیوں میں ہی تنہا ہوا ہوں
نہ جانے کس گھڑی نام و نشاں مٹ جائے میرا
کھنڈر کی آخری دیوار پہ لکھا ہوا ہوں
تم اپنے واسطے کچھ شعر اچھے یاد کر لو
میں ہوں اک درد کا نغمہ بہت گایا ہوا ہوں
تمہارے شہر کے پتھر تو میرے آشنا ہیں
ندیم ان کو تم اتنا کہہ دو میں آیا ہوا ہوں
جھیل اور جھیل کنارے کا شجر میرے بعد
ہوگا چپ چاپ بہت چاند اُدھر میرے بعد
کون رہتا ہے یہاں میرے علاوہ گھر میں
لوٹ آتا ہے جو ہر شام مگر میرے بعد
شہر تو پہلے بھی لوگوں سے بھرا رہتا تھا
ہوگا ویران بہت ایک کھنڈر میرے بعد
اسے کہنا کہ یہاں تیز ہوا چلتی ہے
تتلیاں لے کے نہ اب آئے اِدھر میرے بعد
مر گیا ہوں میں قیامت تو نہیں آئی کوئی
جانے کیا سوچتے ہیں زید بکر میرے بعد
تم مرے ساتھ مرے لفظ بھی دفنا ہی دو
یہ نہ ہو بول اٹھے میرا ہنر میرے بعد
جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت
ہیں اس قبیلے سے میرے تعلقات بہت
مری ہتھیلی پہ تم خود کو ڈھونڈنا چھوڑو
مرے نصیب میں آئیں گے حادثات بہت
وہ ہم ہی تھے کہ جنہیں ڈوبنا پڑا ورنہ
سمندروں کے کنارے رکھے تھے ہات بہت
کسی نے اپنے اندھیروں میں روشنی چاہی
کسی کا ذکر کیا چاند نے بھی رات بہت
وہ جس نے عین جوانی میں ہم کو مار دیا
ندیم اس سے جڑی تھیں توقعات بہت
تمہارے بعد خود کو دیکھنا ہے
کہ مجھ میں اور کتنا حوصلہ ہے
مکمل تجھ کو بھی کرنا نہیں ہے
تجھے لکھ کر ادھورا چھوڑنا ہے
کسی جنگل میں اب رہنا پڑے گا
مرا گاؤں مکمل ہو چکا ہے
زمیں کا آخری حصہ ہیں آنکھیں
جہاں انسان آ کر ڈوبتا ہے
نہ جانے کس پہ مشکل وقت آیا
کوئی خط میں ہتھیلی بھیجتا ہے
مجھے یکسر عطا کر دے خدایا
مری قسمت میں جو کچھ بھی لکھا ہے
محبت ہی خدا سے مانگتے ہیں
محبت ہی ہمارا مسئلہ ہے
مجھے پانی نے یہ پیغام بھیجا
کہ ستلج پھر سے بہنے لگ پڑا ہے
ندیم اک شخص کو پانے کی خاطر
مجھے حد سے گزرنا پڑ گیا ہے
عجیب ہوں کہ محبت شناس ہو کر بھی
اداس لگتا نہیں ہوں اداس ہو کر بھی
خدا کی طرح کوئی آدمی بھی ہے شاید
نظر جو آتا نہیں آس پاس ہو کر بھی
نمو کی روشنی لے کر اُگا ہوں صحرا میں
میں سبز ہو نہیں سکتا ہوں گھاس ہو کر بھی