اللہ رے ہمارا تکلّف، شبِ وصال
روغن کے بدلے عطر جلایا گلاب کا
Printable View
اللہ رے ہمارا تکلّف، شبِ وصال
روغن کے بدلے عطر جلایا گلاب کا
مسجد سے مے کدے میں مجھے نشّہ لے گیا
موجِ شرابِ جادہ تھی، راہِ ثواب کا
انصاف سے وہ زمزمہ میرا اگر سنے
دم بند ہووے طوطیِ حاضر جواب کا
الفت جو زلف سے ہے دلِ داغ دار کو
طاؤس کو یہ عشق نہ ہو گا سحاب کا
معمور جو ہوا عرقِ رخ سے وہ ذقن
مضمون مل گیا مجھے چاہِ گلاب کا
آتش شبِ فراق میں پوچھوں گا ماہ سے
یہ داغ ہے دیا ہوا کس آفتاب کا؟
سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا
پاتا ہوں ناف کا کمرِ یار میں مقام
چشمہ مگر عدم میں ہے گوہر کی آب کا
کیا کیا اُلجھتا ہے تری زلفوں کے تار سے
بخیہ طلب ہے سینۂ صد چاک شانہ کیا؟
زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟