مفت پیتے ہیں وہ ہر قسم کی
جن کو مے خانے کی خدمت ہو گئی
Printable View
مفت پیتے ہیں وہ ہر قسم کی
جن کو مے خانے کی خدمت ہو گئی
خط میں وہ مجھے اوّل تو سنائی ہیں ہزاروں
آخر میں*لکھا ہے کہ میں کچھ نہیں*کہتا
ایک تو وعدہ اور اُس پہ قسم
یہ یقیں ہے کہ اب ملیں*گے آپ
لیئے تو چلتے ہیں*حضرت دل تمہیں بھی اس انجمن میں*لیکن
ہمارے پہلو میں*بیٹھ کر تم ہمیں سے پہلو تہی نہ کرنا
عید کو بھی خفا خفا ہی رہے
آج کے دن خوشی سے ملنا تھا
جفائیں کرتے ہیں تھم تھم کے اس خیال سے وہ
گیا تو پھر یہ نہیں میرے ہاتھ آنے کا
یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں* ہے اے دلِ ناداں
ابھی پھر سے روٹھ جائیں* گے ابھی وہ مَن کے بیٹھے ہیں
تیری آنکھیں تو بہت اچھی ہیں
سب انہیں کہتے ہیں بیمار یہ کیا
داغ تھا درد تھا غم تھا کہ الم تھا کچھ تھا
لے لیا عشق میں جو ہم کو میسر آیا
لیتے نہیں بزم میں مرا نام
کہتے ہیں خیال ہے کسی کا