یہ شُعلہ ہائے بدن اپنے سامنے پا کر
چراغ کیوں نہ لہو کے بچشمِ شوق جلیں
Printable View
یہ شُعلہ ہائے بدن اپنے سامنے پا کر
چراغ کیوں نہ لہو کے بچشمِ شوق جلیں
بات سمجھو نہ اور ترساؤ
پھول ہو تم کلی نہ بن جاؤ
چاند سے اِس رُخِ منّور کو
حرفِ انکار سے نہ گہناؤ
ہم سمجھتے ہیں چشم و دل کی زباں
اتنا ناداں ہمیں نہ ٹھہراؤ
مثلِ خوشبُو در آؤ ہر در سے
مثلِ گُل اِس نظر میں لہراؤ
مسکنِ درد ہے یہ تن اِس کو
لمس و لطفِ نظر سے سہلاؤ
یخ ہیں پہلو مرے کبھی اِن کو
حدتِ جسم و جاں سے گرماؤ
ہو مزّین تمہی سے اپنا بدن
اِس کے صفحوں پہ یُوں اُتر آؤ
بچھڑ چلے ہو تو کیا پھر کبھی نہ آؤ گے
رُتوں کے رنگ سبھی ساتھ لیتے جاؤ گے
بھٹکنے دو گے نہ کب تک اِسے قریب اپنے
مرے خیال کے پر کب تلک جلاؤ گے