معراج ہے بدن کی یہ ساعت ملاپ کی
ہے پیاس جس قدر بھی نہ کیونکر مٹائیں ہم
Printable View
معراج ہے بدن کی یہ ساعت ملاپ کی
ہے پیاس جس قدر بھی نہ کیونکر مٹائیں ہم
جذبوں کی مشعلیں ہوں فروزاں سرِ زباں
محفل دل و نگاہ کی یوں بھی سجائیں ہم
دیکھے بہ رشک چاند ہمیں جھانک جھانک کر
یوں بھی بہ لطفِ خاص کبھی جگمگائیں ہم
بپھری رُتوں کے رنگ سبھی دِل میں سینت لیں
تقریب اِس طرح کی بھی کوئی منائیں ہم
کیونکر پئے حُصولِ ثمر مثلِ کودکاں
شاخِ سُرور کو نہ بعجلت ہلائیں ہم
بفیضِ قرب پھریں مستیِ نظر کی رُتیں
کبھی ملو کہ خیابانِ تن میں پھُول کھِلیں
یہی حجاب تو ہیں وجہِ خامشی، ورنہ
سُنیں تمہاری بھی، کچھ اپنے دل کی بات کہیں
یہ حرفِ گرم، تہِ حلق رُک گیا کیسا
سُلگ اُٹھی ہیں یہ کیونکر لب و زباں کی تہیں
کسی اُفق کو تو ہم تُم بھی دیں جنم آخر
یہ آسمان و زمیں بھی کسی جگہ تو ملیں
کبھی تو دیجئے آ کر اِنہیں بھی اِذنِ کشود
پڑی ہیں خوں میں جو گرہیں کسی طرح تو کھُلیں