سنا ہے سیر کو نکلی ہوئی ہے موجِ نشاط
عجب نہیں طرفِ کوچۂ ملال بھی آئے
Printable View
سنا ہے سیر کو نکلی ہوئی ہے موجِ نشاط
عجب نہیں طرفِ کوچۂ ملال بھی آئے
ہمیں عطیۂ ترکِ طلب قبول نہ تھا
سو ہم تو اس کی عنایت ہی خاک ڈال بھی آئے
بہتر یہ ہے کہ وہ تنِ شاداب ادھر نہ آئے
برسوں سے میرے شہر میں برسات نہیں ہوئی
پیشِ ہوس تھا خوانِ دو عالم سجا ہوا
اس رزق پر مگر گزر اوقات نہیں ہوئی
تیرے بغیر بھی غمِ جاں ہے وہی کہ نہیں
نکلا نہ ماہتاب تو کیا رات نہیں ہوئی
ہم کون پیرِ دل زدگاں ہیں کہ عشق میں
یاراں بڑے بڑوں سے کرامات نہیں ہوئی
کیا سہل اُس نے بخش دیا چشمۂ حیات
جی بھر کے سیرِ وادیِ ظلمات نہیں ہوئی
میرے جنوں کو ایک خرابے کی سلطنت
یہ تو کوئی تلافیِ مافات نہیں ہوئی
اپنا نسب بھی کوئے ملامت میں بار ہے
لاکھ اپنے پاس عزتِ سادات نہیں ہوئی
یاقوت لب تو کارِ محبت کا ہے صلہ
اُ جرت ہوئی حضور یہ سوغات نہیں ہوئی