حیراں ہوں کہ پھر اس نے نی کی صبر کی تاکید
بازو جو مرا بازوئے دلدار میں آیا
Printable View
حیراں ہوں کہ پھر اس نے نی کی صبر کی تاکید
بازو جو مرا بازوئے دلدار میں آیا
یہ آئنہ گفتار کوئی اور ہے مجھ میں
سوچا بھی نہ تھا میں نے جو گفتار میں آیا
حاصل نہ ہوا مجھ کو وہ مہتاب تو معبود
کیا فرق ترے ثابت و سیار میں آیا
ہو چکا جو کچھ وہی بار دگر کرنا مجھے
پانیوں میں راستہ، شعلوں میں گھر کرنا مجھے
تجھ کو اک جادو دکھانا پیچ و تابِ خاک کا
اک تماشا اے ہوائے رہگزر کرنا مجھے
دھیرے دھیرے ختم ہونا سر کا سودا، دل کا درد
رفتہ رفتہ ہر صدف کو بے گہر کرنا مجھے
اپنے چاروں سمت دیواریں اٹھانا رات دن
رات دن پھر ساری دیواروں میں در کرنا مجھے
کہیں خیام لگیں قریۂ وصال بھی آئے
شبِ سفر میں کبھی ساعتِ زوال بھی آئے
کسی افق پہ تو ہو اتصالِ ظلمت و نور
کہ ہم خراب بھی ہوں، اور وہ خوش خصال بھی آئے
سخن میں کب سے ہے روشن یہ کیا ضروری ہے
کہ وہ ستارۂ مطلع مثال بھی آئے