اُجالنا ہیں مجھے تیرگی میں رستے بھی
شجر شجر بھی مجھے سایۂ دار کرنا ہے
Printable View
اُجالنا ہیں مجھے تیرگی میں رستے بھی
شجر شجر بھی مجھے سایۂ دار کرنا ہے
میں آفتاب ہوں لیکن مثال ماہ مجھے
شب سیہ کا سفر اختیار کرنا ہے
بکھر نہ جائے کہیں ریگزار فرقت میں
سو یہ خیال دلِ بے قرار کرنا ہے
میں اپنے آپ سے بچھڑا ہوا ہوں اے خورشید
مجھے خود اپنا ہی اب انتظار کرنا ہے
بریدہ شاخ نے پھر زخم زخم آنکھوں میں
سجا لیے ہیں کسی موجۂ بہار کے خواب
کبھی کبھی میری آنکھوں میں جاگ اٹھتے ہیں
کسی خیال کی خوشبو سے وصلِ یار کے خواب
ہوا کے دل میں نجانے ہے کیا کہ مدت سے
بکھیرتی چلی جاتی ہے ریگزار کے خواب
٫کہانی اپنی مکمل نہ ہو سکی خورشید
کہ لٹ گئے کہیں رستے میں دُور پار کے خواب
جنگل کی ویرانی میں
خاموشی سے گونجا میں
تنہائی میں روشن ہوں
ایک دیا یادوں کا میں