ختم ہو نہیں سکتا
خواب کا سفر ہوں میں
Printable View
ختم ہو نہیں سکتا
خواب کا سفر ہوں میں
کئی زمانوں سے تیری جانب رواں ہوں لیکن
قدم قدم رنجِ رائیگانی کا کیا کروں میں
نہیں ہے کوئی بھی میرے ہمراہ جانے والا
تو موج در موج اس روانی کا کیا کروں میں
گر اِن اندھیروں کے زخم تو نے بھرے نہیں تو
افق افق تیری حکمرانی کا کیا کروں میں
چراغِ امید جل اٹھا ہے مگر مرے دل
سیاہ تر داغِ بدگمانی کا کیا کروں میں
گونجتا ہوں دلوں کے گنبد میں
ایک آوازۂ محبت ہوں
نارسائی مرا مقدر ہے
زیرِ لب اک بیانِ حسرت ہوں
دلِ آسودہ ہے وطن میرا
میں تمنائے دشتِ غربت ہوں
میں ہوں اک پیکرِ خیال و خواب
اور کتنی بڑی حقیقت ہوں
گرچہ میں حرفِ خاک ہوں خورشید
پھر بھی زیبِ کتابِ فطرت ہوں