ہم بڑے اہلِ خرد بنتے تھے ، یہ کیا ہو گیا
عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا
Printable View
ہم بڑے اہلِ خرد بنتے تھے ، یہ کیا ہو گیا
عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا
کر گیا روشن ہمیں پھر سے کوئ بدرِ منیر
ہم تو سمجھے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا
اپنے آنگن ہی میں تھا، راہگزر میں کیا تھا
ایسا تنہا تھا میں باہر بھی کہ گھر میں کیا تھا
سبز پتّوں نے بہت راز چھپا رکھے تھے
رُت جو بدلی تو یہ جانا کہ شجر میں کیا تھا
تھا کمیں گاہ میں سناٹے کا عالم، لیکن
اک نیا رنگ یہ ٹوٹے ہوئے پر میں کیا تھا
تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا
اور کیا دیکھتی دنیا ترے چہرے کے سوا
کم سے کم رنگ تھا سرخی میں، خبر میں کیا تھا
تم یہ دیکھو کہ فقط خاک ہے پیراہن پر
یہ نہ پوچھو کہ مرے رختِ سفر میں کیا تھا
تم بتاتے تو سمجھتی تمہیں دنیا عرفانؔ
فائدہ عرضِ ہنر میں تھا، ہنر میں کیا تھا
ایک ضد تھی، مرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا
ورنہ ٹوٹے ہوئے رشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا