بم کے دھماکے سے زخمی تھی پھولوں والی
اور بازار نے ایک تماشا پہن لیا تھا
Printable View
بم کے دھماکے سے زخمی تھی پھولوں والی
اور بازار نے ایک تماشا پہن لیا تھا
سارا شہر شریک ہوا تھا اس کے دکھ میں
جس دن اس نے غم کا لمحہ پہن لیا تھا
مایوسی کے عالم میں بھی اے خورشید
ہم نے اک امید کا رستہ پہن لیا تھا
بتا کے حالِ دلِ زار اک زمانے کو
عجیب لوگ ہیں رسوائیوں سے ڈرتے ہیں
ہم اپنے دل میں چھپائے ہوئے تری خوشبو
ترے خیال کی پُروائیوں سے ڈرتے ہیں
کسی کے نام پہ خورشید کاٹ لیں گے حیات
بس ایک عمر کی تنہائیوں سے ڈرتے ہیں
حرف حرف میں موجود
بات کا اثر ہوں میں
منزلوں چلوں گا ساتھ
ایک رہگذر ہوں میں
دھوپ کی عنایت ہے
سایۂ شجر ہوں میں
پیڑ ہوں خیالوں کا
اور بے ثمر ہوں میں