تتلیاں رنگ چنتی رہتی ہیں
اور میں خوشبوؤں کی کان میں ہوں
Printable View
تتلیاں رنگ چنتی رہتی ہیں
اور میں خوشبوؤں کی کان میں ہوں
وحشتیں ، عشق اور مجبوری
کیا کسی خاص امتحان میں ہوں
خواہشیں سایہ سایہ بکھری ہیں
اور میں دھوپ کے مکان میں ہوں
میں ہوں پیکانِ درد اے خورشید
اور اک یاد کی کمان میں ہوں
میں تیری یاد کو آواز دے کر
دکھوں کے منظروں میں کھو گیا تھا
مجھے تصویر کے سو رخ دکھا کر
وہ شیشہ کرچیوں میں کھو گیا تھا
تمہارے خواب کی سرحد سے آگے
مرا دل رتجگوں میں کھو گیا تھا
ستارا بام پر خورشید چمکا
مگر پھر گھاٹیوں میں کھو گیا تھا
اپنا عُریاں جسم چھپانے کی کوشش میں
تیز ہوا نے پتا پتا پہن لیا تھا
ماتمی کپڑے پہن لیے تھے میری زمیں نے
اور فلک نے چاند ستارہ پہن لیا تھا