جانے کیوں لوگ ہنسا کرتے ہیں
جانے ہم کونسا غم بھول گئے
Printable View
جانے کیوں لوگ ہنسا کرتے ہیں
جانے ہم کونسا غم بھول گئے
اب تو جینے دو زمانے وا لو
اب تو اس زُلف کے خَم بھول گئے
زندگی نے جو سکھایا تھا علیم
زندگی کے لئے ہم بھول گئے
اے روح قطرہ قطرہ پگھل آپ کے لیے
اے خامہ سیلِ خواب میں چل آپ کے لیے
ہر شعر ماورائے سخن ہو کچھ اس طرح
اے دل تو لفظ لفظ میں ڈھل آپ کے لیے
اپنے معاملے میں حساب اسکا اور ہے
سو بار اے زباں سنبھل آپ کے لیے
مرتا ہوں آرزو میں کہ اے کاش لکھ سکوں
جیسے ہیں آپ ایسی غزل آپ کے لیے
مانگے ہے جیسے سجدوں میں دل آج آپ کو
تڑپے سوا یہ آج سے کل آپ کے لیے
اس ظرف کائنات پہ کتنے کھلیں گے آپ
جب اس کا ایک دور ہو پل آپ کے لیے
اس دشتِ بے اماں سے نکل آپ کے لیے
اے روح کائنات بدل آپ کے لیے
دل گزارو کہ جاں نثار کرو
دور صدیوں کا یہ غبار کرو
کوئی مذہب نہیں ہے خوشبو کا
عام یہ مژدۂ بہار کرو
زنگی ایک بار ملتی ہے
دوستو زندگی سے پیار کرو
میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں
کسی کی آنکھ میں پانی ہی پانی چھوڑ آیا ہوں
ابھی تو اس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے
ابھی تو اس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں
بس اتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیا ہوں
اور اب احساس ہوتا ہے تمہارے شہر میں آ کر
میں تنہا رات اور راتوں کی رانی چھوڑ آیا ہوں
اسی خاطر مرے چاروں طرف پھیلا ہے سناٹا
کہیں میں اپنے لفظوں کے معانی چھوڑ آیا ہوں
ندیم اس شہر کی گلیوں محلوں اور سڑکوں پر
میں اپنی زندگی شاید بنانی چھوڑ آیا ہوں
ہر ایک سانس پہ دھڑکا کہ آخری تو نہیں
ملے دوبارہ اگر ایسی زندگی تو نہیں
اچانک آنا تمہارا اور اس قدر چاہت
کہیں یہ دوست مری آخری خوشی تو نہیں
تو کیوں نہ تجھ سے تری گفتگو ہی کی جائے
ترے علاوہ یہاں میرا کوئی بھی تو نہیں
ہم اہل عشق بڑے وضع دار ہوتے ہیں
ہماری آنکھ میں دیکھو کہیں نمی تو نہیں
فصیلیں چاٹنے والے مجھے بتائیں ندیم
کہیں زمین پہ یہ آخری صدی تو نہیں
مشورہ جو بھی ملا ہم نے وہی مان لیا
عشق میں اچھے برے سب ہی کا احسان لیا
تم فقط خواہش دل ہی نہیں اب ضد بھی ہو
دل میں رہتے ہو تو پھر دل میں تمہیں ٹھان لیا
وہ مرے گزرے ہوئے کل میں کہیں رہتا ہے
اس لیے دُور سے اس شخص کو پہچان لیا
آزمایا ہی نہیں دوسرے جذبوں کو ندیم
اس محبت کو ہی بس سب سے بڑا مان لیا
ہاتھ اٹھایا تھا ستاروں کو پکڑنے کے لیے
چرخ نے چاند کو خنجر کی طرح تان لیا
چلا گیا ہے وہ لیکن نشان اب بھی ہیں
کہ اس کے سوگ میں پسماندگان اب بھی ہیں
یہ اور بات کہ رہنا مرا گوارا نہیں
تمہارے شہر میں خالی مکان اب بھی ہیں
یہ عشق ہے کہ تجھے چھوڑ بھی نہیں سکتے
وگرنہ تجھ سے تو ہم بدگمان اب بھی ہیں
ہمیں تو پہلے بھی تم سے گلہ نہیں تھا کوئی
اور اب کے ہے بھی تو ہم بے زبان اب بھی ہیں
سہولت ہو اذیت ہو، تمہارے ساتھ رہنا ہے
کہ اب کوئی بھی صورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
ہمارے رابطے ہی اس قدر ہیں تم ہو اور بس تم
تمہیں سب سے محبت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
اور اب گھر بار جب ہم چھوڑ کر آ ہی چکے ہیں تو
تمہیں جتنی بھی نفرت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
ہمارے پاؤں میں کیلیں اور آنکھوں سے لہو ٹپکے
ہماری جو بھی حالت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
تمہیں ہر صبح اور ہر شام ہے بس دیکھتے رہنا
تم اتنی خوبصورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
کسی کا انتظار اب کے نہیں ہے
گئے وہ دن کہ کھڑکی دیکھتا تھا
محبت نے اکیلا کر دیا ہے
میں اپنی ذات میں اک قافلہ تھا