نوحہ گر کون ہے مقدر میں
رونے والوں میں ہیں مگر آنکھیں
Printable View
نوحہ گر کون ہے مقدر میں
رونے والوں میں ہیں مگر آنکھیں
اس گذر گاہ سے پہنچیں تو کہیں منزل تک
جیسے گذرے گی گذاریں گے گذرنے والے
خوش نوائی نے رکھا ہم کو اسیر اے صیّاد!
ہم سے اچھے رہے صدقے میں اترنے والے
پوری مہندی بھی لگانی نہیں آئی اب تک
کیوں کر آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا
کہیں مشتاق سے حجاب ہوا
کہیں پردہ اٹھا دیا تو نے
دوست دشمن ہیں سبھی بزم میں* دیکھیں کیا ہو
کس سے خوش ہوتے ہیں وہ کس سے خفا ہوتے ہیں
داد خواہوں سے وہ کہتے ہیں*کہو ہم بھی تو سنیں
دو گے تم حشر میں سب مل کے دُہائی کیوں*کر
تنہا بھی جب رہے تو وہ رہتے ہیں*ہوشیار
خود اپنے پاسباں* ہیں اگر پاسباں نہیں
وعدے کی شب رہا ہے کیا انتظار مجھ کو
آنے کا وہ یہاں تک سامان کر کے بھولے
وہ جو تجھ سے دوستی کرنے لگا
مجھ کو دشمن سےمحبت ہو گئی