کوئی ٹوٹا ہوا پتا، کوئی بکھرا ہوا خواب
درد کی جوت جگاتا ہی چلا جاتا ہے
Printable View
کوئی ٹوٹا ہوا پتا، کوئی بکھرا ہوا خواب
درد کی جوت جگاتا ہی چلا جاتا ہے
اک بگولہ پئے تسکینِ تمنا کب سے
دشت میں خاک اڑاتا ہی چلا جاتا ہے
طاقِ اخلاص میں جلتا ہوا اک ایک چراغ
تیرگی دل کی مٹاتا ہی چلا جاتا ہے
ایک نقطہ سرِ قرطاسِ محبت دل میں
دائرے غم کے بناتا ہی چلا جاتا ہے
کوئی خورشید مرے دشتِ گماں میں آ کر
فکر کے پھول کھلاتا ہی چلا جاتا ہے
ترے خیال کا صحرا عبور کرنے میں
ہے نفع درد کا لیکن خسارہ خواب کا ہے
جلے بجھے ہوئے خیمے کی راکھ میں جس کو
ستارے ڈھونڈتے ہیں وہ شرارہ خواب کا ہے
خدا کرے کہ کھلے ایک دن زمانے پر
مری کہانی میں جو استعارہ خواب کا ہے
برس رہا ہے زمین سخن پہ جو خورشید
کسی ملال کا یا ابر پارہ خواب کا ہے
کسی خیال ، کسی خواب کے جزیرے پر
تمام عمر گزارا گیا تھا کیوں مجھ کو