کانپتے ہاتھوں میں دلدار دعاؤں کے چراغ
اور اشکوں کے ستاروں سے مصلیٰ روشن
Printable View
کانپتے ہاتھوں میں دلدار دعاؤں کے چراغ
اور اشکوں کے ستاروں سے مصلیٰ روشن
سرپھری لہروں سے لڑتے ہوئے بازو تھک جائیں
پھر بھی آنکھوں میں رہے کوئی جزیرہ روشن
کل کی دنیا کی بنا ڈال رہا ہے کوئی
ننھے ہاتھوں میں ہے مٹی کا گھروندا روشن
آنکھیں ایسی ہوں کہ جل جائیں سیاہی کے ورق
انگلیاں ایسی کہ تحریر کا سینہ روشن
***
ملالِ دولتِ بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں
ہم اپنی خاک سے پھر گنج زر نکالتے ہیں
میں اپنے نقدِ ہنر کی زکوٰۃ بانٹتا ہوں
مرے ہی سکے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں
بڑھا کے میرے معانی پہ لفظ کا زنگار
مرے حریف مرے آئنے اجالتے ہیں
سجا کے آئنۂ حرف پیشِ آئنہ
ہم اک کرن سے ہزار آفتاب ڈھالتے ہیں
عذابِ جاں ہے عزیزو خیالِ مصرعِ تر
سو ہم غزل نہیں لکھتے عذاب ٹالتے ہیں
اس سے بچھڑ کے بابِ ہنر بند کر دیا
ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا