اک دن میری تنہائی کے زخموں کو
سرد ہوا مستانی بھرنے آئی تھی
Printable View
اک دن میری تنہائی کے زخموں کو
سرد ہوا مستانی بھرنے آئی تھی
میرے دل کے ٹھنڈے میٹھے چشمے پر
اک دوشیزہ پانی بھرنے آئی تھی
میری غزل کے بے معنی سے حرفوں میں
تیری یاد معانی بھرنے آئی تھی
تیرے بدن کی خوشبو میری سانسوں میں
کوئی شام سہانی بھرنے آئی تھی
میرے خوابوں کے دامن میں اے خورشید
خوشبو، رات کی رانی بھرنے آئی تھی
چراغِ زخمِ تمنا کی لو بڑھائے ہوئے
فصیلِ غم میں ہے اک آس در بنائے ہوئے
اک آرزو کے سفر سے پلٹ رہا ہوں میں
دلِ و نگاہ کی محرومیاں اٹھائے ہوئے
کوئی نہیں جو مٹائے مری سیہ بختی
فلک پہ کتنے ستارے ہیں جگمگائے ہوئے
کوئی فرات کا دریا ہیں میری آنکھیں بھی
ہوائے درد ہے پہرے جہاں بٹھائے ہوئے
بہت دنوں سے ہے خورشید یہ خرابۂ دل
مرے نصیب کی ویرانیاں بسائے ہوئے