پانی کم ہو تو آنکھوں کی جھیلوں میں
چن چن کر یہ اشک سمویا کرتی ہوں
Printable View
پانی کم ہو تو آنکھوں کی جھیلوں میں
چن چن کر یہ اشک سمویا کرتی ہوں
لمحہ لمحہ ہے میرا مصروف بہت
جگمگ جگمگ زخم پرویا کرتی ہوں
صبح نہ جانے تکیہ کیوں ہوتا ہے سرخ رات تو میں پانی سے بھگویا کرتی ہوں
سوچ سمندر کے اکثر خواب سفر میں تھک کر اپنا آپ ڈبویا کرتی ہوں
جب سے تو نے شجر کیا ہے مجھے
رنگ و نکہت نے گھر کیا ہے مجھے
میں تو بے مول ایک آنسو تھا
تیرے غم نے گہر کیا ہے مجھے
قافلوں کو تلاش ہے میری
تو نے یوں رہگذر کیا ہے مجھے
ایک پل ہوں محیط صدیوں پر
روز و شب نے بسر کیا ہے مجھے
دن مجھے شام کر گیا خورشید
اور شب نے سحر کیا ہے مجھے
صحرا کی ویرانی بھرنے آئی تھی
اور کوئی دیوانی بھرنے آئی تھی