اشکوں کے تار توڑ گیا وقت کا طلسم
ہم ہچکیوں سے روز کی بیزار ہو گئے
Printable View
اشکوں کے تار توڑ گیا وقت کا طلسم
ہم ہچکیوں سے روز کی بیزار ہو گئے
دیکھا اسے قریب سے ہم نے تو یوں ہوا
ہم خامشی سے مائلِ اغیار ہو گئے
جب انتظار تھا تو سویرا نہیں ہوا
سوتے رہے تو صبح کے آثار ہو گئے
بیکار حسرتوں کو ذرا چھانٹ کیا لیا
ہم اپنی منزلوں کے بھی مختار ہو گئے
آزاد تھے تو اپنی زمینیں بلند تھیں
ہاتھوں میں لے کے چاند گرفتار ہو گئے
ڈوبے ہیں ساحلوں کی سرکتی سی ریت میں
لے پانیوں کے ہم بھی طلب گار ہو گئے
ہم ہی سے تو زباں کی حلاوت کا ذکر تھا
ہم ہی مثالِ تلخی ِ گفتار ہو گئے
چاند ، دریا ستارے چھوٹے ہیں
عشق کے استعارے جھوٹے ہیں
اس کے لہجے سے صاف ظاہر ہے
اس کے الفاظ سارے جھوٹے ہیں
ایک تنہائی ہی حقیقت ہے
اور باقی سہارے جھوٹے ہیں