پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں
اے ہوائے سرِ صحرا تری رفتار پہ خاک
Printable View
پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں
اے ہوائے سرِ صحرا تری رفتار پہ خاک
آپ کیا نقدِ دو عالم سے خریدیں گے اسے
یہ تو دیوانے کا سر ہے سرِ پندار پہ خاک
یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمھیں
محضرِ شوق پڑھو، محضرِ سرکار پہ خاک
یہ غزل لکھ کے حریفوں پہ اُڑا دی میں نے
جم رہی تھی مرے آئینۂ اشعار پہ خاک
چڑیوں ، پھولوں ، مہتابوں کا
مرا منظر نامہ خوابوں کا
آنکھوں میں لوح خزانوں کی
شانوں پر بوجھ خرابوں کا
یا نصرت آج کمانوں کی
یا دائم رنگ گلابوں کا
اک اسم کی طاہر چادر میں
طے موسم دھوپ عذابوں کا
ا یسا تو نہیں کہ اُن سے ملاقات نہیں ہوئی
جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نہیں ہوئی
بہتر یہ ہے کہ وہ تنِ شاداب ادھر نہ آئے
برسوں سے میرے شہر میں برسات نہیں ہوئی