دئیے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے
تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے
Printable View
دئیے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے
تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے
زمین ہے نہ زماں نیند ہے نہ بیداری
وہ چھاؤں چھاؤں سا اک سلسلہ ہمارے لئے
سخن وروں میں کہیں ایک ہم بھی تھے لیکن
سخن کا اور ہی تھا ذائقہ ہمارے لئے
ہم نے کھلنے نہ دیا بے سر و سامانی کو
کہاں لے جائیں مگر شہر کی ویرانی کو
صرف گفتار سے زخموں کا رفو چاہتے ہیں
یہ سیاست ہے تو پھر کیا کہیں نادانی کو
کوئی تقسیم نئی کر کے چلا جاتا ہے
جو بھی آتا ہے مرے گھر کی نگہبانی کو
اب کہاں جاؤں کہ گھر میں بھی ہوں دشمن اپنا
اور باہر مرا دشمن ہے نگہبانی کو
بے حسی وہ ہے کہ کرتا نہیں انساں محسوس
اپنی ہی روح میں آئی ہوئی طغیانی کو
آج بھی اس کو فراز آج بھی عالی ہے وہی
وہی سجدہ جو کرے وقت کی سلطانی کو
آج یوسف پہ اگر وقت یہ لائے ہو تو کیا
کل تمھیں تخت بھی دو گے اسی زندانی کو
صبح کھلنے کی ہو یا شام بکھر جانے کی
ہم نے خوشبو ہی کیا اپنی پریشانی کو
و ہ بھی ہر آن نیا میری محبت بھی نئی
جلوۂ حسن کشش ہے مری حیرانی کو
کوزۂ حرف میں لایا ہوں تمھاری خاطر
روح پر اترے ہوئے ایک عجب پانی کو
پہلا شاعر میر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
پہلے وہ تقدیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
ایک اکیلا میں چاہوں تو کیسے رہائی ہو
پہلے وہ زنجیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
اس کا چہرہ دیکھ رہے تھے آئینہ اور میں
پہلے وہ تصویر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
صرف انا ہی لکھواتی ہے ذات کی ہر سچائی
میں پہلے تحریر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
آگے آگے بھاگنے کا ہے ایک سبب یہ بھی
پہلے پیدا تیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
حسن کو اک شمشیر بناتے میں نے عمر بِتائی
تب قامت شمشیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
سات سمندر سے گہری ہے شاعر کی گہرائی
کہتے ہیں اک میر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
مجھ سے آگے جانے والی میری ہی تنہائی
اس سے وہ تعمیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
بات بڑے ہی دکھ کی لیکن کتنی سچی اچھی
پہلے آیا میر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
جس کا ماننے والا ہوں وہ خوب ہے جاننے والا
لیکن کیا تشہیر ہوا اور اس کے بعد ہوں میں
تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی
کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی
کہتے تھے ہم کہ جی نہ سکیں گے ترے بغیر
یہ کیا ہوا کہ تجھ سے محبت نہیں رہی
رسوائیوں سے بڑھ تو گیا زندگی کا بوجھ
پر یہ ہوا کہ خود سے ندامت نہیں رہی
کھنچتی تھی جس سے حرف میں اک صورتِ خیال
وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی
اے موسمِ حیات و زمانہ کے شکوہ سنج
کیا صبر آ گیا کہ شکایت نہیں رہی
کیا نذر دیں جو کوئی نئی آرزو کریں
دل میں تو ٹوٹنے کی بھی ہمت نہیں رہی
جس سمت جایئے وہیں ملتے ہیں اپنے لوگ
اس کی گلی ہی کوئے ملامت نہیں رہی
جہاں بیٹھے ، صدائے غیب آئی
یہ سایہ بھی اُسی دیوار کا ہے
وصالِ یار سے پہلے محبت
خود اپنی ذات کا اک راستا ہے
سلامت آئینے میں ایک چہرہ
شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے
رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ
کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے
آج بھی اس کو فراز آج بھی عالی ہے وہی
وہی سجدہ جو کرے وقت کی سلطانی کو
یہ کیسے شعر تم لکھنے لگے ہو
عبید اﷲ تمہیں کیا ہو گیا ہے
عشوہ و غمزہ و رم بھول گئے
تیری ہر بات کو ہم بھول گئے
لوگ دیتے ہیں جسے پیار کا نام
ایک دھوکہ تھا کہ ہم بھول گئے
جن کو دعویٰ تھا مسیحائی کا
اپنا ہی دیدۂ نم بھول گئے
یوں ہی الزام ہے دیوانوں پر
کب ہوئے تھے جو کرم بھول گئے