وجود و عدم دونوں گھر پاس نکلے
نہ یہ دور نکلا ۔ نہ وہ دور نکلا
Printable View
وجود و عدم دونوں گھر پاس نکلے
نہ یہ دور نکلا ۔ نہ وہ دور نکلا
لے چلو مجھکو رہروان عدم
یہاں ٹھکانہ نظر نہیں آتا
کچھ تازگی ہو لذتِ آزار کے لئے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گردِ راہ یہ کس کارواں کی ہے
تاریکیِ لحد سے نہیں دل جلے کو خوف
روشن رہے گا تا بہ قیامت چراغِ داغ
وہ مجھے قتل کر کے کہتے ہیں
مانتا ہی نہ تھا یہ کیا کہیے
آپ کا خیر خواہ میرے سوا
ہے کوئی اور دوسرا کہیے
حضرتِ خضر جب شہید نہ ہوں
لطفِ عمرِ دراز کیا جانیں
انہی قدموں نے تمھارے انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کہ جی جانتا ہے
کوئی آسان ہے تیرا دیدار
پہلے بنوائے تو بشر آنکھیں