ابھی سیاہ، ابھی سیم گوں، ابھی خونبار
افق افق ہے یہ منظر گریز پا کیسا
Printable View
ابھی سیاہ، ابھی سیم گوں، ابھی خونبار
افق افق ہے یہ منظر گریز پا کیسا
اذان ہے کہ عَلم کیا بلند ہوتا ہے
یہ جل رہا ہے ہوا میں چراغ سا کیسا
یہ لوگ دشتٕ جفا میں کسے پکارتے ہیں
یہ باز گشت سناتی ہے مرثیہ کیسا
گلوئے خشک میں سوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر
خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا
یہ ایک صف بھی نہیں ہے، وہ ایک لشکر ہے
یہاں تو معرکہ ہوگا، مقابلہ کیسا
سلگتی ریت میں کو شاخ شاخ دفن ہوا
رفاقتوں کا شجر تھا ہرا بھرا کیسا
یہ سرخ بوند سی کیا گھل رہی ہے پانی میں
یہ سبز عکس ہے آنکھوں میں پھیلتا کیسا
کھڑا ہے کون اکیلا حصارِ غربت میں
گھرا ہوا ہے اندھیروں میں آئینہ کیسا
یہ ریگِ زرد ردا ہے برہنہ سر کے لئے
اجاڑ دشت میں چادر کا آسرا کیسا
سیاہ نیزوں پہ سورج ابھرتے جاتے ہیں
سوادِ شام ہے منظر طلوع کا کیسا