اک ہیولہ ہے ساتھ رہتا ہے
چاہنے پر نظر بھی آتا ہے
Printable View
اک ہیولہ ہے ساتھ رہتا ہے
چاہنے پر نظر بھی آتا ہے
لاکھ تنہائی کی منازل ہوں
راہ میں ہمسفر بھی آتا ہے
اتنا دشوار تو نہیں رستہ
گاہے گاہے شجر بھی آتا ہے
رات اچھی بھی لگتی ہے لیکن
نیند آنے پہ ڈر بھی آتا ہے
مرے جنوں کو ہے تجھ سے ثبات پھر ملنا
مری نظر کی حسین کائنات پھر ملنا
تجھے یہ دن کے اجالے بھی سوچتے ہوں گے
یہ شوقِ دید میں جاگے گی رات ، پھر ملنا
بس ایک تُو ہی ہے لمحہ قرار کا ورنہ
سراپا درد ہے ساری حیات ، پھر ملنا
ہزار رنگ ابھی تیرے مجھ سے لپٹے ہیں
جلو میں لے کے دھنک کی برات پھر ملنا
چٹخ رہے ہیں مرے ہونٹ ریگزاروں میں
بجھی ہے پیاس کہاں اے فرات پھر ملنا
سنی ہوئی ہے تری آنکھ کی زباں میں نے
تجھے سنانی ہے اس دل کی بات پھر ملنا