خود فریبی حد سے باہر بھی تو کچھ اچھی نہیں
’ہاں‘ دکھائی دے رہی ہے تیرے انکاروں کے بیچ
Printable View
خود فریبی حد سے باہر بھی تو کچھ اچھی نہیں
’ہاں‘ دکھائی دے رہی ہے تیرے انکاروں کے بیچ
ساری دنیا ایک جانب اور تو ہے اک طرف
دیکھتے رہتے ہیں تجھ کو پیار سے ساروں کے بیچ
یوں مرا انتظار کرنا کبھی
ٹوٹ کر مجھ سے پیار کرنا کبھی
میرا باطن تو تم پہ ظاہر ہے
خود کو بھی آشکار کرنا کبھی
تم نے جو کہہ دیا صحیفہ ہے
میرا بھی اعتبار کرنا بھی
تم جہاں بھی ہو صرف میرے ہو
اعتراف ایک بار کرنا کبھی
سانس لیتے ہو تم بدن سے مرے
مجھ اپنا شمار کرنا کبھی
موڑ اک پُر خطر بھی آتا ہے
اور رستے میں گھر بھی آتا ہے
عشق کی داستاں عجیب سی ہے
سنگ آتا ہے سر بھی آتا ہے
جانتے ہیں سو گھر سے نکلے ہیں
رہ میں رنجِ سفر بھی آتا ہے