تم اس کا وار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
Printable View
تم اس کا وار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
دبیز کہر ہے یا نرم دھوپ کی چادر
خبر نہیں ترے بعد اے غبارِ شب کیا ہے
دکھا رہا ہے کسے وقت ان اگنت منظر
اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں، تو پھر یہ سب کیا ہے
میں اپنے چہرے سے کس طرح یہ نقاب اٹھاؤں
سمجھ بھی جا کہ پسِ پردۂ طرب کیا ہے
یہاں نہیں ہے یہ دستورِ گفتگو عرفانؔ
فغاں سنے نہ کوئی، حرفِ زیر لب کیا ہے
اس تکلف سے نہ پوشاکِ بدن گیر میں آ
خواب کی طرح کبجی خواب کی تعبیر میں آ
میں بھی اے سرخیِ بے نام تجھے پہچانوں
تو حنا ہے کہ لہو، پیکرِ تصویر میں آ
اس کے حلقوں میں تگ و تاز کی وسعت ہے بہت
آہوئے شہر، مری بانہوں کی زنجیر میں آ
چارہ گر خیر سے خوش ذوق ہے، اے میری غزل
کام اب تو ہی مرے درد کی تشہیر میں آ
وہ بھی آمادہ بہت دن سے ہے سننے کے لئے
اب تو اے حرفِ طلب معرضِ تقریر میں آ