بہار کب سے سرِ کوئے شب رکی ہوئی ہے
کوئی کہو کہ ذرا روشنی میں پھول کھلا
Printable View
بہار کب سے سرِ کوئے شب رکی ہوئی ہے
کوئی کہو کہ ذرا روشنی میں پھول کھلا
نسیم حجرہ نشیں لوگ انتظار میں ہیں
دریچے کھول، ہماری گلی میں پھول کھلا
سمجھ لرزتی لوؤں کو دعائے موسمِ وصل
چراغ موج پہ رکھ دے، ندی میں پھول کھلا
ہم ہر اک شخص کی دعوت پہ کہاں جاتے ہیں
پھیر دی ہے مہ و انجم کی سواری ہم نے
موجِ خوں نے کسے سیراب کیا ہے اب تک
لے کے کیا کرنا ہے یہ چشمۂ جاری ہم نے
جب بھی کی ہم رہیِ بادِ بہاری ہم نے
خاک پر آگے نظر اپنی اتاری ہم نے
عمر بھر ہم سے وہ اک حرف کی دوری پہ رہے
اور نہ سیکھا ہنرِ عرض گزاری ہم نے
بانوئے شہر کو ہے ہم سے تقاضا بیکار
اپنے دلبر کی نہ کی آئینہ داری ہم نے
شکستہ پیرہنوں میں بھی رنگ سا کچھ ہے
ہمارے ساتھ ابھی نام و ننگ سا کچھ ہے
حریف تو سپر انداز ہو چکا کب کا
درونِ ذات مگر محوِ جنگ سا کچھ ہے