یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں
ختن میں رہ کے بھی چشمِ غزل ہی کے تو ہیں
Printable View
یہاں بھی اس کے سوا اور کیا نصیب ہمیں
ختن میں رہ کے بھی چشمِ غزل ہی کے تو ہیں
کہا تھا تم نے کہ دیتا ہے کون عشق میں جان
سو ہم جواب تمھارے سوال ہی کے تو ہیں
شہا! ملال نہ رکھ خاک اڑانے والوں سے
کہ یہ گواہ تیرے ملک و مال ہی کے تو ہیں
بے کراں رات میں تو انجمن آرا ہے کہ ہم
اے زمیں تو اس اندھیرے کا ستارہ ہے کہ ہم
اس نے پوچھا تھا کہ سر بیچنے والا ہے کوئی
ہم نے سر نامۂ جاں نذر گزارا ہے کہ ہم
کیا خبر کون زوالِ شبِ ہجراں دیکھے
یاں چراغِ شبِ ہجراں کا اشارہ ہے کہ ہم
تو ادھر کس کو ڈبونے کے لئے آئی تھی
دیکھ اے موجِ بلا خیز کنارہ ہے کہ ہم
آج تک معرکۂ صبر و ستم جاری ہے
کون جانے یہ تماشا اسے پیارا ہے کہ ہم
زوالِ عمر کی افسردگی میں پھول کھلا
ہوائے خوش بدنی میرے جی میں پھول کھلا
یہ آگ تیرے ہی افسوں کی ہے لگائی ہوئی
تری سزا ہے کہ اب آگ ہی میں پھول کھلا