چمن میں ناز بلبل نے کیا جب اپنے نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی ہے ہو نہیں سکتا
Printable View
چمن میں ناز بلبل نے کیا جب اپنے نالے پر
چٹک کر غنچہ بولا کیا کسی ہے ہو نہیں سکتا
نہ رونا ہے طریقہ کا نہ ہنسنا ہے سلیقےکا
پریشانی میں کوئی کا جی سے ہو نہیں سکتا
مژگاں اٹھا، اشارۂ پیکاں میں بات کر
اے جاں طلب، محاورۂ جاں میں بات کر
یا برگ ریزِ ہوٗ میں نہ ہو ہم سے ہم کلام
یا لہجۂ ہوائے بہاراں میں بات کر
کیا یوں ہی محوِ جامہ دری میں ہمارے ہاتھ
کچھ دیکھ کر تو اپنے گریباں میں بات کر
ممکن نہیں مکالمۂ درد شہر میں
اچھا یہ بات ہے!، تو بیاباں میں بات کر
کیوں رشک ہے کہ بول رہے ہیں ہمارے زخم
تو بھی زبانِ سادہ و آساں میں بات کر
پیشِ حبیب طولِ سخن اور بات ہے
اک روز جا کے بزمِ رقیباں میں بات کر
جوہر ہماری خاک میں برق و شرر کا ہے
تو لعل چاہتا ہے بدخشاں میں بات کر
اسی دنیا میں مرا کوئے نگاراں بھی تو ہے
ایک گھر بھی تو ہے، اک حلقۂ یاراں بھی تو ہے