اک طبع رنگ رنگ تھی سو نذرِ گُل ہوئی
اب یہ کہ ساتھ اپنے بھی رہتا نہیں ہوں میں
Printable View
اک طبع رنگ رنگ تھی سو نذرِ گُل ہوئی
اب یہ کہ ساتھ اپنے بھی رہتا نہیں ہوں میں
ہو دیدۂ ہنر دلِ درد آشنا کی خیر!
کب لذّتِ خیال میں دریا نہیں ہوں میں
تم نے بھی میرے ساتھ اٹھائے ہیں دکھ بہت
خوش ہوں کہ راہِ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں
پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے نا شناس دھوپ
سایوں کے درمیان ہوں ، سایہ نہیں ہوں میں
جو کچھ بھی ہوں میں اپنی ہی صورت میں ہوں علیمؔ
غالبؔ نہیں ہوں ، میرؔ و یگانہؔ نہیں ہوں میں
جو مہرباں کوئی چہرہ نظر بھی آتا ہے
تو دل میں گُزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے
ہرے بھرے مرے خوابوں کو روندنے والو
خدائے زندہ زمیں پر اُتر بھی آتا ہے
وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا ہے میرا وُجود
کب آئے گا جو کوئی ابرِ تر بھی آتا ہے
کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہُنر بھی آتا ہے
ابھی چلا بھی نہ تھا اور رُک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے
ملے گا اور مِرے سارے زخم بھر دے گا
سُنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے
یہ میرا عہد یہ میری دُکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے
کوئی چُرا کے مجھے کیسے چھُپ سکے کہ علیمؔ
لہو کا رنگ مرے حرف پر بھی آتا ہے
لکھنے ہیں ابھی مرثیہ ہائے دل و جاں اور
کچھ زخم مجھے اے مرے مرہم نظراں اور
اتنا ہی کہ بس نغمہ سرایانِ جہاں ہیں
ملتا نہیں کچھ اس کے سوا اپنا نشاں اور
کھینچے ہے مری طبعِ سخن اپنی ہی جانب
اور گردشِ دوراں ہے کہ دکھلائے سماں اور
کچھ نذر ہوئے وقت کی بے رحم ہوا کے
کچھ خواب ابھی میرے لہو میں ہیں رواں اور
ہر لحظہ میں آزادیِ جاں کا تھا طلب گار
ہر گام پڑی پاؤں میں زنجیرِ گراں اور
کس طرح سے اچھا ہو وہ بیمار کہ جس کو
دُکھ اور ہو، دیتے ہوں دوا چارہ گراں اور
جب اپنا سُر پاتال ہوا
تب وحیِ نفَس انزال ہوا
اک اصل کے خواب میں کھو جانا
یہ وصل ہوا کہ وصال ہوا
تھا دکھ اپنی پیدائش کا
جو لذت میں انزال ہوا
کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں
کن قدموں سے پامال ہوا
بن عشق اسے کیونکر جانوں
جو عشق سراپا حال ہوا
اس وقت کا کوئی انت نہیں
یہ وقت تو ماہ و سال ہوا
وہی ایک خلش نہ ملنے کی
ہمیں ملتے دسواں سال ہوا
ہر اچھی بات پہ یاد آیا
اک شخص عجیب مثال ہوا
ہر آن تجلی ایک نئی
لکھ جانا میرا کمال ہوا
کس بات کو کیا کہتا تھا میں
تم کیا سمجھے یہ ملال ہوا
تم کیسی باتیں کرتے ہو
اے یار صغیر ملال ہوا
کل رات سمندر لہروں پر
دیوانوں کا دھمّال ہوا
اک رانجھا شہر کراچی میں
اک رانجھا جھنگ سیال ہوا
زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لئے
تو آسمان سے اترا خدا ہمارے لئے
انھیں غرور کہ رکھتے ہیں طاقت و کثرت
ہمیں یہ ناز بہت ہے خدا ہمارے لئے
تمہارے نام پہ جس آگ میں جلائے گئے
وہ آگ پھول ہے وہ کیمیا ہمارے لئے
بس ایک لو میں اسی کے گرد گھومتے ہیں
جلا رکھا ہے جو اس نے دیا ہمارے لئے
وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے
وہ ایک شخص دعا ہی دعا ہمارے لئے
وہ نور نور دمکتا ہوا سا اک چہرہ
وہ آئینوں میں حیاہی حیا ہمارے لئے
درود پڑھتے ہوئے اس کی دید کو نکلیں
تو صبح پھول بچھائے صبا ہمارے لئے
عجب کیفیت جذب و حال رکھتی ہے
تمہارے شہر کی آب و ہوا ہمارے لئے