شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادیِ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
Printable View
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادیِ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
اڑاتے دولتِ دنیا کو ہیں ہم عشق بازی میں
طلائی رنگ پر صدقے کیا کرتے ہیں کندن کو
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری
بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر
کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا
تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
اسیر ہونے کا اللہ رے شوق بلبل کو
جگایا نالوں سے صیاد کو جو خواب آیا
عالم جو تھا مطیع ہمارے کلام کا
کیا اسم اعظم اپنے دہن سے نکل گیا؟
ہوتا ہے پردھ فاش کلام دروغ کا
وعدے کا دن سمجھ لے وہ پیماں گسل تمام
پیادہ پا جو چمن میں بہار کو دیکھا
ہوا کے گھوڑے کے اوپر خزاں سوار ہوئی
خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے
جرس سے مژدہ منزل ہے کارواں سنتا
نالوں سے مرے کون تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
آئینے میں دیکھا ہے کو منہ چاند سا اپنا
خود گم ہے وہ بت، عاشق خود گم سے زیادہ
چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
فرہاد سر کو پھوڑ کے تیشے سے مر گیا
شیریں نے ناپسند مگر بے ستوں کیا
باغ سنسان نہ کر، ان کو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مرغ ِ خوش الحاں پیدا
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پہ گماں تھا
طریقِ عشق میں اے دل عصائے آہ ہے شرط
کہیں چڑھاؤ کسی جا اتار راہ میں ہے
کنڈی چڑھا کے شام سے وہ شوخ سو رہا
پٹکا کیا میں سر کو پسِ در تمام رات
عجب اس کا کیا نہ سماؤں میں جو خیالِ دشمن و دوست میں
وہ مقام ہوں کہ گزر نہیں، وہ مکان ہوں کہ پتا نہیں
جو پہنے اُس کو جامۂ عریانی ٹھیک ہو
اندام پر ہر اک کے ہے یہ پیرہن درست
پری سے چہرہ کو اپنے وہ نازنیں دکھلائے
حجاب دور ہو، ٹوٹے طلسم گھونگھٹ کا
بناوٹ کیفِ مے سے کھُل گئی اُس شوخ کی آتش
لگا کر مُنہ سے پیمانے کو، وہ پیمان شکن بگڑا
کر کے آرایش، جو دیکھی اُس صنم نے اپنی شکل
بند آنکھیں ہو گئیں، آئینہ حیراں رہ گیا
جو سطر ہے، وہ گیسوئے حورِ بہشت ہے
خالِ پری ہے نقطہ، ہماری کتاب کا
چاروں طرف سے صورتِ جاناں ہو جلوہ گر
دل صاف ہو ترا تو ہے آئینہ خانہ کیا
ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا
ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے
قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے
ملانا خاک میں عاشق کا ہے شغل اُن کے دامن کو
دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری
ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا
کب افسانۂ زلفِ شب گوں نہ نکلا
بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے
کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا
زنجیر کا وہ غل نہیں زنداں میں اے جنوں
دیوانہ قید خانہ تن سے نکل گیا
خلوت میں ہاتھ یار کے جانا نہ تھا تمہیں
ارباب انجمن ہوئے آتش ہجل تمام
وفا سرشت ہوں، شیوہ ہے دوستی میرا
نہ کی وہ بات جو دشمن کو ناگوار ہوئی
نہ پوچھ، کان میں کیا کیا کہا ہے ، کس کس نے
پھر ہوں تیری خبر میں کہاں کہاں سنتا
یاد آتی ہے مجھ کو تن بے جاں کی خرابی
آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے