حسن سے بھی دل کو بے پروا کیا
کیا کیا اے عشق! تو نے کیا کیا
Printable View
حسن سے بھی دل کو بے پروا کیا
کیا کیا اے عشق! تو نے کیا کیا
تو نے سو سو رنگ سے پردا کیا
دیکھنے والا تجھے دیکھا کیا
وہ بھی نکلی اک شعاع برق حسن
میں جسے اپنی نظر سمجھا کیا
ایک رنگیں نقاب نے مارا
حُسن بن کر حجاب نے مارا
جلوۂ آفتاب کیا کہیئے
سایۂ آفتاب نے مارا
کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا، اُن کو پیار آ ہی گیا
جب نگاہیں اُٹھ گئیں، اللہ رے معراجِ شوق
دیکھتا کیا ہوں وہ جانِ انتظار آ ہی گیا
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
ہاں سزا دے اے خدائے شوق، اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا
اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا