جیسے تجدید تعلق کی بھی رُت ہو کوئی
زخم بھرتے ہیں تو احباب بھی آ جاتے ہیں
Printable View
جیسے تجدید تعلق کی بھی رُت ہو کوئی
زخم بھرتے ہیں تو احباب بھی آ جاتے ہیں
ساقیا ! تو نے تو میخانے کا یہ حال کیا
بادہ کش محتسب شہر کے گن گاتے ہیں
طعنۂ نشہ نہ دو سب کو کہ کچھ سوختہ جاں
شدتِ تشنہ لبی سے بھی بہک جاتے ہیں
ہر کڑی رات کے بعد ایسی قیامت گزری
صبح کا ذکر بھی آئے تو لرز جاتے ہیں
جو اُس نے کیا اُسے صلہ دے
مولا مجھے صبر کی جزا دے
یا میرے دیے کی لو بڑھا دے
یا رات کو صُبح سے ملا دے
سچ ہوں تو مجھے امر بنا دے
جھوٹا ہوں تو نقش سب مٹا دے
یہ قوم عجیب ہو گئی ہے
اس قوم کو خوئے انبیا دے
اُترے گا نہ کوئی آسماں سے
اک آس میں دل مگر صدا دے
بچوں کی طرح یہ لفظ میرے
معبود، انھیں بولنا سکھا دے
اک میرا وجود سُن رہا ہے
الہام جو رات کی ہوا دے
مجھ سے مرا کوئی ملنے والا
بچھڑا تو نہیں مگر ملا دے
چہرہ مجھے اپنا دیکھنے کو
اب دستِ ہوس میں آئینہ دے
جس شخص نے عمرِ ہجر کاٹی
اس شخص کو ایک رات کیا دے
کیا چیز ہے خواہشِ بدن بھی
ہر بار نیا ہی ذائقہ دے
چھونے میں یہ ڈر کہ مر نہ جاؤں
چھو لوں تو وہ زندگی سِوا دے
دُکھتا ہے بدن کہ پھر ملے وہ
مل جائے تو روح کو دُکھا دے
ہم دیوانوں کی قسمت میں لکھے ہیں یاں قہر بہت
کوچہ کوچہ سنگ بہت اور زنداں زنداں زہر بہت
جب تک ہم مانوس نہیں تھے درد کی ماری دنیا سے
عارض عارض رنگ بہت تھے آنکھوں آنکھوں سحر بہت
ہم تو جہاں والوں کی خاطر جان سے گزرے جاتے ہیں
پھر ستم کیا ہے کہ ہمیں پر تنگ ہوا ہے دہر بہت
اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے
سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اٹھیں تو لہر بہت
رات آئی تو گھر گھر وحشی سایوں کی تقسیم ہوئی
دن نکلا تو جبر کی دھوپ میں جلتا ہے یہ شہر بہت
ساری عمر تماشا ٹھہری ہجر و وصال کی راہوں کا
جس سے ہم نے پیار کیا وہ نکلا ہے بے مہر بہت
قید ہی شر ط ہے اگر یہ بھی مر ی سزا کرو
وصل کی قید دو مجھے ہجر سے اب رہا کر و
قید ہی شر ط ہے اگر یہ بھی مر ی سزا کرو
وصل کی قید دو مجھے ہجر سے اب رہا کر و
بات کسی سے بھی کرو بات کسی کی بھی سنو
بیٹھ کے کاغذوں پہ تم نام وہی لکھا کر و
یار ہما را ایلیا ہم سے اٹھا لیا گیا
بیٹھے اب اپنی ذات میں ایلیا ایلیا کر و
دوستو ،خون شہیداں کا اثر تو دیکھو
کاسۂ سر لیے آئ ہے سحر تو دیکھو
درد کی دولت کمیاب میرے پاس بہت
ظرف کی داد تو دو میرا جگر تو دیکھو
منزل شوق گریزاں ہے گریزاں ہی سہی
راہ گم گشتہ مسافر کا سفر تو دیکھو
اور چاند کا دشت بھی آباد کبھی کر لینا
پہلے دنیا کے یہ اجڑے ہوئے گھر تو دیکھو
فخر ہم پیشہ گہ دیدہ وراں جانے دو
داغ ہم پیشہ گیہ ننگ ہنر تو دیکھو
کتنے کوہِ گراں کاٹے تب صبحِ طرب کی دید ہوئی
اور یہ صبحِ طرب بھی یارو کہتے ہیں بیگانی ہے
ہر آواز زمستانی ہے ، ہر جذبہ زندانی ہے
کوچۂ یار سے دار و رسَن تک ایک سی ہی ویرانی ہے
جتنے آگ کے دریا ہیں سب پار ہمیں کو کرنا ہیں
دنیا کس کے ساتھ آئی ہے ، دنیا تو دیوانی ہے
لمحہ لمحہ خواب دکھائے اور سو سو تعبیر کرے
لذّت کم آزار بہت ہے جس کا نام جوانی ہے
دل کہتا ہے وہ کچھ بھی ہو اس کی یاد جگائے رکھ
عقل یہ کہتی ہے کہ توہّم پر جینا نادانی ہے
تیرے پیار سے پہلے کب تھا دل میں ایسا سوز و گداز
تجھ سے پیار کیا تو ہم نے اپنی قیمت جانی ہے
آپ بھی کیسے شہر میں آ کر شاعر کہلائے ہیں علیم
درد جہاں کمیاب بہت ہے ، نغموں کی ارزانی ہے
گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں
سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں میں