مرضِ جدائیِِ یار نے، یہ بگاڑ دی ہے ہماری خُو
کہ موافق اپنے مزاج کے نظر آتی کوئی دوا نہیں
Printable View
مرضِ جدائیِِ یار نے، یہ بگاڑ دی ہے ہماری خُو
کہ موافق اپنے مزاج کے نظر آتی کوئی دوا نہیں
مجھے زعفران سے زرد تر غمِ ہجرِ یار نے کر دیا
نہیں ایسا کوئی زمانہ میں، مرے حال پر جو ہنسا نہیں
مرے آگے اس کو فروغ ہو ، یہ مجال کیا ہے رقیب کی
یہ ہجومِ جلوۂ یار ہے ، کہ چراغِ خانہ کو جا نہیں
چلیں گو کہ سینکڑوں آندھیاں ، جلیں گرچہ لاکھ گھر اے فلک
بھڑک اٹھے آتشِ طور پھر، کوئی اس طرح کی دوا نہیں
حالِ شکستہ کا جو کبھی کچھ بیان کیا
نکلا نہ ایک اپنی زباں سے سخن درست
آئے بہار جائے خزاں ہو چمن درست
بیمار سال بھر کے نظر آئیں تندرست
رکھتے ہیں آپ پاؤں کہیں پڑتے ہیں کہیں
رفتار کا تمہاری نہیں ہے چلن درست
جو پہنے اُس کو جامۂ عریانی ٹھیک ہو
اندام پر ہر اک کے ہے یہ پیرہن درست
آئینہ سے بنے گا رُخِ یار کا بناؤ
شانے سے ہو گی زلفِ شکن در شکن درست
کم، شاعری بھی نسخۂ اکسیر سے، نہیں،
مستغنی ہو گیا جسے آیا یہ فن درست