دیکھتے گر ذرا ہنس کے اے مہرباں کچھ بگڑنا نہ تھا
چاند چہرے کا ہوتا اگر ضَونشاں کچھ بگڑنا نہ تھا
Printable View
دیکھتے گر ذرا ہنس کے اے مہرباں کچھ بگڑنا نہ تھا
چاند چہرے کا ہوتا اگر ضَونشاں کچھ بگڑنا نہ تھا
دو قدم ہم چلے تھے اگر دو قدم تم بھی چلتے ادھر
اس سے ہونا نہیں تھا کسی کا زیاں،کچھ بگڑنا نہ تھا
حسن کی کھنکھناتی ندی جانے کیوں ہم سے کھنچتی رہی
گھونٹ دو گھونٹ پینا تھا آبِ رواں، کچھ بگڑنا نہ تھا
بندھنوں سے بغاوت، قیامت کا باعث نہ ٹھہری کبھی
جس طرح کا ہے، رہتا وہی آسماں کچھ بگڑنا نہ تھا
تھوکنے سے بھلا رُوئے مہتاب پر فرق پڑنا تھا کیا
کھُل گئی اِس طرح نیّتِ حاسداں کچھ بگڑنا نہ تھا
رنگ گھُلیں جب بھی پُروا میں یاد بہت آتے جو جاناں
پھُول کھلیں جب بھی بگھیا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
اوس پڑی جب پھُولوں پر ہو، قوس دھنک کی پیشِ نظر ہو
برکھا کی نمناک ہو امیں یاد بہت آتے ہو جاناں
تم کہ مہک کا اک جھونکا ہو تم کہ لپکتی موجِ صبا ہو
تنہائی جیسے صحرا میں، یاد بہت آتے ہو جاناں
کیف نیا دے جانے والے ،قرب کا لطف دلانے والے
موسم کی پر نور فضا میں یاد بہت آتے ہو جاناں
ہر سو ہیں خوشبو کے ریلے ،ہیں جس میں رنگوں کے میلے
عیش مناتی اس دنیا میں یاد بہت آتے ہو جاناں