در پئے آزار کچھ احباب کچھ اغیار تھے
اُن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے
Printable View
در پئے آزار کچھ احباب کچھ اغیار تھے
اُن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے
گُرز جو ہم پر اُٹھا اپنے نشانے پر لگا
تیر چِلّے پر چڑھے جتنے جگر کے پار تھے
جان لیوا خامشی اُس کی تھی اور جو بول تھے
سب کے سب شاخِ سماعت پر تبر کی دھار تھے
کھو کے اُس چنچل کی چاہت میں یہی ہم پر کھلا
اِک ذرا سا لطف، پھر آزار ہی آزار تھے
کیا سے کیا اُس شوخ کے ہاتھوں نہ سہنے پڑ گئے
جس قدر بھی جبر کے آداب تھے، اطوار تھے
دل دُکھایا مرا تم تو ایسے نہ تھے
تم نے یہ کیا کِیا تم تو ایسے نہ تھے
تم نے جھاڑا مجھے شاخ سے برگ سا
اور دیا پھر اُڑا تم تو ایسے نہ تھے
کس کی باتوں میں آ کر تیاگا مجھے
تم کہ تھے با وفا تم تو ایسے نہ تھے
بھول جاؤں نہ منہ تک تمہارے لگوں
تم نے یہ بھی کہا، تم تو ایسے نہ تھے
آگ پہلے دکھائی مری آس کو
اور اُسے دی ہوا، تم تو ایسے نہ تھے