ہم اپنی کیوں طرز فکر چھوڑیں ہم اپنی کیوں وضع خاص بدلیں
کہ انقلابات نو بہ نو تو ہوا کیے ہیں ہوا کریں گے
Printable View
ہم اپنی کیوں طرز فکر چھوڑیں ہم اپنی کیوں وضع خاص بدلیں
کہ انقلابات نو بہ نو تو ہوا کیے ہیں ہوا کریں گے
پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا
کس کس ادا سے شکوۂ دردِ جگر ہوا
کچھ داغِ دل سے تھی مجھے امید عشق میں
سو رفتہ رفتہ وہ بھی چراغِ سحر ہوا
تھم تھم کے اُن کے کان میں پہنچی صدائے دل
اُڑ اُڑ کے رنگِ چہرہ مرا نامہ بر ہوا
سینے میں پھر بھڑکنے لگی آتشِ فراق
دامن میں پھر معاملۂ چشمِ تر ہوا
رگ رگ نے صدقے کر دیا سرمایۂ شکیب
اللہ! کس کا خانۂ دل میں گزر ہوا
فریاد کیسی ؟ کس کی شکایت ؟ کہاں کا حشر ؟
دنیا اُدھر کی ٹوٹ پڑی وہ جدھر ہوا
وارفتگیِ شوق کا اللہ رے کمال!
جو بے خبر ہوا وہ بڑا باخبر ہوا
حسرت اُس ایک طائرِ بے کس پر ، اے جگر
جو فصلِ گل کے آتے ہی بے بال و پر ہوا
کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا