یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالمِ انسانیت پر بار ہو جائے
Printable View
یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالمِ انسانیت پر بار ہو جائے
یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالمِ انسانیت پر بار ہو جائے
یہ روز و شب ، یہ صبح و شام ، یہ بستی ، یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
وہ حسنِ کافر اللہ اکبر
تخریبِ دوراں، آشورِ محشر
وہ قدِ رعنا، وہ روئے رنگیں
عالم ہی عالم، منظر ہی منظر
گیسو و عارض، شانہ بہ شانہ
شام معطر، صبحِ منور
شرمائیں جن سے ساون کی راتیں
وہ حلقہ ہائے زلف معنبر
وہ مست نظریں جب اُٹھ گئی ہیں
ٹکرا گئے ہیں ساغر سے ساغر
گفتار شیریں، رفتار نازک
خیام و حافظ، تسنیم و کوثر
کشور کُشائے دل ہائے خوباں
فرمانروائے جاں ہائے مضطر