اس سے کہنے کو گئے تھے کہ محبت ہے بہت
اس کو دیکھا تو شکستہ دل و محجوب آئے
Printable View
اس سے کہنے کو گئے تھے کہ محبت ہے بہت
اس کو دیکھا تو شکستہ دل و محجوب آئے
آگے کیا ہو یہ سخن آج تو یوں ہے جیسے
اپنے نام اپنا ہی لکھا ہوا مکتوب آئے
ایک دربار کی تصویر میں کچھ اہل قلم
وقت کی آنکھ نے دیکھا کے بہت خوب آئے
دکھ سے پھر جاگ اٹھی آنکھ ستارے کی طرح
اور سب خواب ترے نام سے منسوب آئے
ہم نے دل نذر کیا اہل محبت کے حضور
ان نے قامت یہ بڑھایا ہے کے مصلوب آئے
میں تری خاک سے لپٹا ہوا اے عرض وطن
ان ہی عشاق میں شامل ہوں جو معتوب آئے
صاحب مہر وفا ارض و سما کیوں چپ ہیں
ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں خدا کیوں چپ ہیں
بے سبب غم میں سلگنا مری عادت ہی سہی
ساز خاموش ہے کیوں شعلہ نوا کیوں چپ ہے
پھول تو سہم گئے دست کرم سے دمِ صبح
گنگناتی ہوئی آوارہ صبا کیوں چپ ہے
ختم ہو گا نہ کبھی سلسلہ اہل وفا
سوچ اسے داورِ مقتل یہ فضا کیوں چپ ہے
مجھ پہ طاری ہے رہ ِ عشق کی آسودہ تھکن
تجھ پہ کیا گزری مرے چاند بتا کیوں چپ ہے
جاننے والے تو سب جان گئے ہوں گے علیم
ایک مدت سے ترا ذہن رسا کیوں چپ ہے
ملتا جُلتا تھا حال میر کے ساتھ
میں بھی زندہ رہا ضمیر کے ساتھ
ایک نمرود کی خدائی میں
زندگی تھی عجب فقیر کے ساتھ
آنکھ مظلوم کی خدا کی طرف
ظلم اک ظلمتِ کثیر کے ساتھ
جرم ہے اب مری محبت بھی
اپنے اس قادر و قدیر کے ساتھ
اس نے تنہا کبھی نہیں چھوڑا
وہ بھی زنداں میں ہے اسیر کے ساتھ
کس میں طاقت وفا کرے ایسی
اپنے بھیجے ہوئے سفیر کے ساتھ
سلسلہ وار ہے وہی چہرہ
عالم اصغر و کبیر کے ساتھ
آنے والا ہے اب حساب کا دن
ہونے والا ہے کچھ شریر کے ساتھ
تیرے پیچھے ہے جو قضا کی طرح
کب تلک جنگ ایسے تیر کے ساتھ
شب دعاؤں میں تر بتر میری
صبح اک خوابِ دل پذیر کے ساتھ
اہلِ دل کیوں نہ مانتے آخر
حرف روشن تھا اس حقیر کے ساتھ
چہرہ ہوا میں اور میری تصویر ہوئے سب
میں لفظ ہوا مجھ میں ہی زنجیر ہوئے سب
بُنیاد بھی میری درو دیوار بھی میرے
تعمیر ہوا میں کہ یہ تعمیر ہوئے سب
بتلاؤ تو یہ آب و ہوا آئی کہاں سے
کہنے کو تو تم لہجہ و تاثیر ہوئے سب
ویسے ہی لکھو گے تو میرا نام ہی ہو گا
جو لفظ لکھے وہ میری جاگیر ہوئے سب
مرتے ہیں مگر موت سے پہلے نہیں مرتے
یہ واقعہ ایسا ہے کہ دلگیر ہوئے سب
وہ رات بے پناہ تھی اور میں غریب تھا
وہ جس نے یہ چراغ جلایا عجیب تھا
وہ روشنی کہ آنکھ اُٹھائی نہیں گئی
کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا
دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو گئی میری
وہ مُسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا
رکھتا نہ کیوں میں رُوح و بدن اُس کے سامنے
وہ یُوں بھی تھا طبیب وہ یُوں بھی طبیب تھا
ہر سلسلہ تھا اُس کا خُدا سے ملا ہوا
چُپ ہو کہ لب کُشا ہوا بلا کا خطیب تھا
موجِ نشاط و سیلِ غمِ جاں تھے ایک ساتھ
گلشن میں نغمہ سنج عجب عندلیب تھا
میں بھی رہا ہوں خلوتِ جاناں میں ایک شام
یہ خواب ہے یا واقعی میں خوش نصیب تھا
حرفِ دُعا و دستِ سخاوت کے باب میں
خود میرا تجربہ ہے وہ بے حد نجیب تھا
دیکھا ہے اُس خلوت و جلوت میں بار ہا
وہ آدمی بہت ہی عجیب و غریب تھا
لکّھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیم
اُس کو دِکھا نہ پاؤ وہ ایسا حبیب تھا
اب تو اس طرح مری آنکھوں میں خواب آتے ہیں
جس طرح آئینے چہروں کو ترس جاتے ہیں
احتیاط اہل محبت کہ اسی شہر میں لوگ
گل بدست آتے ہیں اور پایہ رسن جاتے ہیں