ہم کہ ہیں چاہتوں کے متوالے
ہم سے اغماض اے نگار! نہ کر
Printable View
ہم کہ ہیں چاہتوں کے متوالے
ہم سے اغماض اے نگار! نہ کر
تو کسی ایک ہی کا ہو کر رہ
خُو کوئی اور اختیار نہ کر
قوسیں مہکتے لمس کی رَس گھولتی رعنائیاں
ہاتھوں سے دُور ہونے لگیں اُس جسم کی گولائیاں
شاخوں سے جھڑتے پھُول سی، سر پر امڈتی دھول سی
حق میں ہمارے ہو چلیں، کیا کیا کرم فرمائیاں
ہر کُنج سے چھلکا کئے کیا کیا خزینے لطف کے
لپٹیں تھیں جیسے مشک کی اُس حسن کی پہنائیاں
ہم کو اکیلا چھوڑ کر، جب سے وہ چنچل جا چکا
ہر سمت اگنے لگ پڑیں، ڈستی ہوئی تنہائیاں
کیوں رُلاتی نہ تمہیں پیار کہانی میری
اور پھر وہ، کہ سنی تم نے زبانی میری
آنچ سی دینے لگا ہجر کا صحرا جب سے
اور مرجھانے لگی عمر سہانی میری
طاقِنسیاں میں کہیں رکھ کے اُسے بھول گئے
انگلیوں میں جو سجائی تھی نشانی میری
برقِ فرقت کی گرج خوف دلاتی ہے یہی
راکھ کا ڈھیر نہ ہو جائے جوانی میری