یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو
Printable View
یارو یہ دور ضعفِ بصارت کا دور ہے
آندھی اُٹھے تو اِس کو گھٹا کہہ لیا کرو
انسان کا اگر قد و قامت نہ بڑھ سکے
تم اِس کو نقصِ آب و ہوا کہہ لیا کرو
اپنے لیے اب ایک ہی راہِ نجات ہے
ہر ظلم کو رضائے خدا کہہ لیا کرو
لے دے کے اب یہی ہے نشانِ ضیا قتیل
جب دِل جلے تو اُس کو دیا کہہ لیا کرو
ٍوعدۂ حور پہ بہلاۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
خاک بولے گے کہ دفناۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
یوں ہر اک ظلم پہ دم سدھے کھڑے ہیں
جیسے دیوار میں چنواۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
اُس کی ہر بات لبیک بھلا کیوں نہ کہیے؟
زر کی جھنکار پہ بُلواۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
جس کا جی چاہے وہ اُنگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگواۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
ہنسی آۓ بھی تو ہنستے ہوۓ ڈر لگتا ہے
زندگی یوں تیرے زخماۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم
آسماں اپنا، زمیں اپنی نہ سانس اپنی تو پھر
جانے کیس بات پہ اِتراۓ ہوۓ لوگ ہیں ہم