پل بھر کو تیری یاد میں دھڑکا تھا دل مرا
اب دور تک بھنور سے پڑے ہیں صداؤں کے
Printable View
پل بھر کو تیری یاد میں دھڑکا تھا دل مرا
اب دور تک بھنور سے پڑے ہیں صداؤں کے
داد سفر ملی ہے کسے راہ شوق میں
ہم نے مٹا دئیے ہیں نشاں اپنے پاؤں کے
جب تک نہ کوئی آس تھی، یہ پیاس بھی نہ تھی
بے چین کر گئے ہمیں سائے گھٹاؤں کے
ہم نے لیا ہے جب بھی کسی راہزن کا نام
چہرے اتر اتر گئے کچھ رہنماؤں کے
اُگلے گا آفتاب کچھ ایسی بلا کی دھوپ
رہ جائیں گے زمین پہ کچھ داغ چھاؤں کے
ہر طرف سطوت ارژنگ دکھائی دے گی
رنگ برسیں گے زمیں دنگ دکھائی دے گی
بارش خون شہیداں سے وہ آئے گی بہار
ساری دھرتی ہمیں گلرنگ دکھائی دے گی
پربتوں سے نکل آئیں گے تھرکتے پیکر
نغمہ زن، خامشی سنگ دکھائی دے گی
راز میں رہ نہ سکے گی کوئی اظہار کی لے
اک نہ اک صورت ماہنگ دکھائی دے گی
سوچ کو جرات پرواز تو مل لینے دو
یہ زمیں اور ہمیں تنگ دکھائی دے گی