تہہ میں جو رہ گئے وہ موتی نکالئے
طغیانیوں کا ہاتھ سمندر میں ڈالئے
Printable View
تہہ میں جو رہ گئے وہ موتی نکالئے
طغیانیوں کا ہاتھ سمندر میں ڈالئے
اپنی حدوں میں رہئے کہ رہ جائے آبرو
اوپر جو دیکھنا ہے تو پگڑی سنبھالئے
خوشبو تو مدتوں کی زمیں دوز ہو چکی
اب صرف پتیوں کو ہوا میں اچھالئے
صدیوں کا فرق پڑتا ہے لمحوں کے پھیر میں
جو غم ہے آج کا اسے کل پر نہ ٹالئے
آیا ہی تھا ابھی مرے لب پہ وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لئے
کہہ دو صلیب شب سے کہ اپنی منائے خیر
ہم نے تو پھر چراغ سروں کے جلا لئے
دنیا کی نفرتیں مجھے قلاش کر گئیں
اک پیار کی نظر مرے کاسے میں ڈالئے
محسوس ہو رہا ہے کچھ ایسا مجھے قتیلؔ
نیندوں نے جیسے آج کی شب پر لگا لئے
منظر سمیٹ لائے ہیں جو تیرے گاؤں کے
نیندیں چرا رہے ہیں وہ جھونکے ہواؤں کے
تیری گلی سے چاند زیادہ حسیں نہیں
کہتے سنے گئے ہیں مسافر خلاؤں کے