ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی
پاس اپنے، اور تو کوئی بھی سرمایہ نہ تھا
Printable View
ہو گئے قلاش جب سے آس کی دولت لٹی
پاس اپنے، اور تو کوئی بھی سرمایہ نہ تھا
وہ پیمبر ہو کہ عاشق، قتل گاہ شوق میں
تاج کانٹوں کا کسے دنیا نے پہنایا نہ تھا
صرف خوشبو کی کمی تھی غور کے قابل قتیل
ورنہ گلشن میں کوئی بھی پھول مرجھایا نہ تھا
رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
غم لکھے رہتے ہیں ہر آن خوشی کے پیچھے
دشمنی دھوپ کی ہے سایۂ دیوار کے ساتھ
کس طرح اپنی محبت کی میں تکمیل کروں
غمِ ہستی بھی تو شامل ہے غم یار کے ساتھ
لفظ چنتا ہوں تو مفہوم بدل جاتا ہے
اک نہ اک خوف بھی ہے جرأتِ اظہار کے ساتھ
بخش دے مجھ کو بھی اعزاز مسیح و منصور
میں نے بھی پیار کیا ہے رسن و دار کے ساتھ
دشمنی مجھ سے کئے جا مگر اپنا بن کر
جان لے لے مری، صیاد! مگر پیار کے ساتھ
دو گھڑی آؤ مل آئیں کسی غالب سے قتیلؔ
حضرت ذوقؔ تو وابستہ ہیں دربار کے ساتھ