کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے
Printable View
کبھی جو عشق تھا اب مَکر ہو گیا میرا
سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے
ابھی چلا بھی نہ تھا اور رک گئے پاؤں
یہ سوچ کر کہ مرا ہمسفر بھی آتا ہے
ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا
سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے
یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز
میں آ گیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے
کوئی چرا کے مجھے کیسے چھپ سکے کہ علیم
لہو کا رنگ مرے حرف پر بھی آتا ہے
چاند جب بھی دیکھا سمندر کے کنارے ہم نے
اور پھیلا دئیے کچھ اپنے کنارے ہم نے
اک عجب شور مچاتی ہوئی تنہائی کے ساتھ
خود میں دہرائے سمندر کے اشارے ہم نے
اتنے شّفاف کہ تھے روح و بدن آئینہ
اصل کے اصل میں دیکھے تھے نظارے ہم نے
رات کیا ٹوٹ کے آئی تھی کہ اس کے دامن سے
جھولیوں بھر لیے آنکھوں میں ستارے ہم نے
لوٹ آنے سے ڈریں اور نہ لوٹیں تو دکھیں
وہ زمانے جو ترے ساتھ گزارے ہم نے
کھلتا جاتا ہے کی یہ جادو گری کس کی ہے
آئینے سامنے رکھے ہیں ہمارے ہم نے
اِک شخص سماں بدل گیا ہے
مٹی کا جہاں بدل گیا ہے
بندہ وہ خُدا نہیں تھا لیکن
ہر جسم میں جاں بدل گیا ہے
وہ آخری آدمی خُدا کا
سب لفظ و بیاں بدل گیا ہے
پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے
زنجیرِ گراں بدل گیا ہے
ہر نام و نسب کے دور میں وہ
سب نام و نشاں بدل گیا ہے
کہتے ہیں شہید کربلا کے
مفہومِ زیاں بدل گیا ہے
ہر زندہ چراغ ہے اُسی کا
وہ نُور کہاں بدل گیا ہے
پروانے کہاں یہ سُننے والے
اب دور میاں بدل گیا ہے
آواز یہ اُس مکاں سے آئی
وہ شخص مکاں بدل گیا ہے
نیچے سے زمیں نِکل گئی ہے
اُوپر سے زماں بدل گیا ہے
کِس خلوتِ خاص میں گیا وہ
کپڑے بھی یہاں بدل گیا ہے
اور سب زندگی پہ تہمت ہے
زندگی آپ اپنی لذت ہے
میرے اور میرے اس خدا کے بیچ
ہے اگر لفظ تو 'محبت' ہے
اک سوال اور اک سوال کے بعد
انتہا حیرتوں کی حیرت ہے
عہد شیطان کا خدا کے ساتھ
سرکشی ہے مگر عبادت ہے
بھید جانے کوئی مگر کیسے
یار کو یار سے جو نسبت ہے
خواب میں ایک شکل تھی میرے
تُو تو اُس سے بھی خوبصورت ہے
پہلے مجھ کو تھی اور اب تیری
میری تنہائی کو ضرورت ہے
گھٹتا بڑھتا رہا مرا سایہ
ساتھ چلنے میں کتنی زحمت ہے
زندگی کو مری ضرورت تھی
زندگی اب مری ضرورت ہے
لکھنے والے ہی جان سکتے ہیں
لفظ لکھنے میں جو قیامت ہے
تھی کبھی شاعری کمال مرا
شاعری اب مری کرامت ہے
عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں
وہ بات کرتی تھی اور خواب دیکھتا تھا میں
وصال کا ہو کہ اس کے فراق کا موسم
وہ لذتیں تھیں کہ اندر سے ٹوٹتا تھا میں
چڑھا ہوا تھا وہ نشہ کے کم نہ ہوتا تھا
ہزار بار ابھرتا تھا ڈوبتا تھا میں
بدن کا کھیل تھیں اس کی محبتیں لیکن
جو بھید جسم کا تھا جاں سے کھولتا تھا میں
پھر اس طرح کبھی سویا نہ اس طرح جاگا
کہ نیند روح میں تھی اور جاگتا تھا میں
کہاں شکست ہوئی اور کہاں صلہ پایا
کسی کا عشق کسی سے نباہتا تھا میں
اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبُوب آئے
جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے