تُو بھی ایسی کوئی فرمائش کبھی ہونٹوں پہ لا
دیکھ بھنورا کس طرح پھولوں کو سہلانے لگا
Printable View
تُو بھی ایسی کوئی فرمائش کبھی ہونٹوں پہ لا
دیکھ بھنورا کس طرح پھولوں کو سہلانے لگا
تُو بھی ایسے میں مرے آئینۂ دل میں اتر
چندرماں بھی دیکھ پھر جھیلوں میں لہرانے لگا
میں بھلا کب اہل، تجھ سے یہ شرف پانے کا ہوں
تُو بھلا کیوں حسن کا ہُن ،مجھ پہ برسانے لگا
عندلیبوں کو گلاب اور تُو مجھے مل جائے گا
موسم گل، دیکھ! کیا افواہ پھیلانے لگا
باغ پر وقت کیسا یہ آنے لگا سوچنا چاہیے
پھول کیوں شاخ سے ٹوٹ جانے لگا سوچنا چاہیے
وہ کہ جو جھانکتا تھا بہاروں سے بھی چاند تاروں سے بھی
جذبۂ دل وہ کیسے ٹھکانے لگا سوچنا چاہیے
وہ کہ جو بندشوں سے بھی دبتا نہ تھا جو سنبھلتا نہ تھا
پھر وہی کیوں نظر میں سمانے لگا سوچنا چاہیے
بن کے نشہ سا چھاؤ گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
جاناں! قریب آؤ گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
آنکھیں ملیں تو مستیاں پھیلیں چہار سو
موسم کو شہ دلاؤ گھٹا بھی ہے مے بھی ہے
جتنی بھی چھا چکی ہیں بدن پر رُتیں اُجاڑ
اُن پر نکھار لاؤ گھٹا بھی ہے مے بھی ہے